ستاور /Asparagus/Satawari/Satavari

دیگرنام :-

ہندی میں ستاور سندھی میں ست وری گجراتی میں شتاوری سنسکرت میں شت مولی

ماہیت :-

اس کا پودابیل کی طرح باڑھ یا درختوں پر چڑھ جاتاہے۔اس کا تنا اور شاخیں خاردار ہوتی ہیں ۔کانٹے تیز اور مڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔پتے کانٹے دار سوئے کے پتوں کی طرح ہوتے ہیں ۔جو باریک دو سے چھ انچ لمبے ہوتے ہیں ۔پھول نومبرمیں نکلتے ہیں ۔جو سفید اور خوشبو دار اور بیل کو ڈھک دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے بیل سفید معلوم ہوتی ہے۔ پھل سردیوں میں لال رنگ کے ہوتے ہیں ۔یہ چھوٹے چھوٹے چنے کے دانے کی طرح لیکن چمک دار انکے اندر تخم ایک سے دونکلتے ہیں ۔جڑ میں گانٹھ سی ہوتی ہے۔جس کی بہت سی شاخیں انگلی کے برابر موٹی ایک سے دو فٹ لمبی مٹیالی یا زرد رنگ کی نکلتی ہیں ۔جو ذائقہ میں قدرے شیریں اور لعاب دار ہوتی ہیں۔ایک گانٹھ سے لگ بھگ دس کلو تک ستاور نکل آتا ہے اور گانٹھ سے دس بارہ برس تک نکلتے رہتے ہیں ۔اس کی جڑ پرایک چھلکا سا ہوتاہے۔جو اتارا جاسکتاہے۔جڑ پرلمبائی میں لکیریں ہوتی ہیں ۔یہی جڑ بطور دوا مستعمل ہے۔ موٹی اور سفید ستاور اچھی ہوتی ہے اس کا ذائقہ شیریں لیس دار ہوتا ہے۔

مقام پیدائش :-

بنگلہ دیش کے باغات کے علاوہ یہ بھارت میں ہمالیہ کے نزدیک چارہزار فٹ کی بلندی پر افریقہ جاوا سماٹرا آسٹریلیا،ہگلی اور اب یہ بیل پاکستان میں بھی ہوتی ہے۔

مزاج :-

سرد تردرجہ اول۔

افعال :-

مقوی باہ مغلظ منی مدرلبن ۔

استعمال :-

ستاور کی جڑ کا سفوف تنہا یا مناسب ادویہ کے ساتھ ملاکررقت منی اور جریان کو مفید ہے دودھ عورت کابڑھاتی ہے اورمردوں میں منی کو بڑھاتی اور مقوی باہ ہے۔ستاور کی جڑ اور مصری ہموزن ملاکر سفوف دینے سے مذکورہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں ۔یا دیگرادویہ کے ہمراہ سفوف یا معجون بناکر استعمال کرتے ہیں ۔تازہ جڑ کا رس دودھ میں ملاکر سوزاک کے مریضوں کو استعمال کرایا جاتاہے۔

نفع خاص :-

مغلظ و مولد منی ۔

مضر :-

نفاخ

مصلح :-

ساکرین لعابی مارے .

مقدارخوراک :-

سات سے دس گرام ۔

مشہور مرکب :-

سفوف سیلان الرحم ،سفوف ثعلب سفوف بیخ بند سفوف شاہی خاص، سفوف مغلظ شاہی ہیں۔

Useful in these Diseases